Hot Posts

header ads

Maseha Dil Romantic Urdu Novel Epi 1

Maseha Dil Romantic Urdu Novel Epi 1


Romantic Urdu Novels Online



 Urdu Novels Online | Urdu Romantic Novels| Rude Hero based Novels| Romantic Love Story Based Novels | Episodic Novels | Romantic Hero Based Novels




مسیحا دل



وہ تو تھی ہی قسمت کی ماری اسے کیا پتا کہ ایک دن وہی یوں سرے عام زلیل ہو گی۔اس نے تو پیدا ہوتے ہی دکھ دیکھے تھے مگر اس کی زندگی میں اتنا  بڑا طوفان آئے گا کسی نے نہیں سوچا تھا۔اس طوفان نے تو گوئا اس کی ساری ہمت سلب کر لی تھی۔وہ وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھی۔اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے کو تیار تھیں اوپر سے لوگوں کی آوازیں الگ اس کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی۔پہلے بھی اس کی زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی مگر اب تو راہ سے گزرتا  ہرآدمی اس پر انگلی کس رہا تھا۔اسے بغیرت اور بد چلن بنا رہا تھا۔کچھ لوگوں نے تو اس پر پتھر اٹھا لئے تھے۔بھرے بازار میں اس کی عزت کا تماشا لگ گیا اور لگانے والے اس کے اپنے خون کے رشتے تھے۔جن کو اس کے ماں باپ نے اس کا محاٖٖفظ بنایا تھا۔مگر وہ دولت کے لالچ میں آ کر اپنی تمام تر انسانیت کھو چکے تھے۔وہ تو شائد اس کی جان لے کر ہی دم لیتے اگر وہ کوئی اس کی مدد کو نہ  آتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی۔

وہاج اور امینہ دونوں بہن بھائی تھے۔وہاج کی شادی اس کی پسند کی لڑکی سے ہوئی جس کا نام تھا صوفیہ۔جبکہ امینہ کو اس کے والدین نے اپنی مرضی کرنے کی اجازت نہیں دی کیوں کہ وہ خاندان سے باہر شادی کرنے کے قائل نہیں تھے۔امینہ چونکہ آحل کو پسند کرتی تھی اس لئے اس نے بہت واویلہ مچایا مگر اس کی کسی نے نہ سنی اور وہ روتے دھوتے حمید کی دلہن بن گئی جو کہ عمر میں بھی اس سے بڑے تھے اور شکل صورت کے بھی اتنے خاص نہیں تھے۔ان کے دل میں اپنے بھائی کے لئے میل آ گیا جو چاہ کر بھی ان گزرتے سالوں میں نہ جا سکا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں اپنے بھائی کے لئے حسد مزید  بڑھتا  گیا،وہ جب بھی اپنے بھائی کو صوفیہ پر جان لٹاتے دیکھتی ان کے دل پر سانپ لوٹتا۔اگرچہ حمید صاحب شکل صورت کے اتنے اچھے نہیں تھے   اور اتنے امیر بھی نہیں تھےمگر وہ پھر بھی وہ امینہ کی ہرضرورت کا خیال رکھتے مگر امینہ بیگم ان کو کسی خاطر میں نہ لاتی اور ہمیشہ ان کو طعنوں سے نوازتی۔وہ بہت صبر تھے اس لئے ابھی تک وہ امینہ کی باتوں اور طعنوں کے باوجود ان کے ساتھ گزارا کر رہے تھے۔شادی کے پانچ سال بعد وہاج صاحب کے گھر پہلی اولاد نے جنم لیا جس کا نام انہوں نے پریوش رکھا۔امینہ اور وہاج کی شادی اکھٹے ہی ہوئی تھی مگر امینہ کی گود ابھی تک خالی تھی۔یہی بات ان کی مزید نفرت کی وجہ بنی۔جب بھی پری ان کے گھر آتی وہ موقع ملتے ہی اسے آنکھیں نکالتی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان سے ڈر کر رہتی۔اسی وجہ سے وہ بہت کم گو اور دبو قسم کی ہوگئی تھی۔ اس کے ماں باپ انتہائی سادہ اور شریف تھے اس لئے اس کی پرسنیلٹی میں اتنا بڑا بدلاؤ محسوس نہیں کر پائے تھے۔وقت گزرتا گیا جب وہ چھ سال کی تھی تو اس کے والدین کا ایک کار حادثے میں وفات ہو گئی۔یہ صدمہ بہت بڑا تھا چھوٹی سی بچی کے لئے۔اس کی خالہ وغیرہ نہیں تھی جو اس کی پرورش کا ذمہ لیتی  اور اس کے نانا نانی پہلے  ہی انتقال کر گئے تھےاس لئے امینہ بیگم نا چاہتے ہوئے بھی اسے گھر لانے پر مجبور تھیں آخر کو انہوں نے رشتہ داروں کو منہ بھی دکھانا تھا۔وہ جو ہفتے کے ایک دن پھوپھو کی گھورتی آنکھیں برداشت نہیں کر پاتی تھی اسےاب ساری زندگی اسے ان کے زیر عتاب رہنا تھا۔امینہ اس کو اس لئے بھی گھر لائی تھی تا کہ اس کے بھائی نہ جو جائیداد پری کے نام کر رکھی تھی وہ انہیں مل جائے۔وہاج نے اپنی زندگی میں اپنی ساری جمع پونجی پری کے نام کر دی تھی جب  سےوہ پیدا ہوئی تھی۔ان کی وصیت کے مطابق پری کے اٹھارا سال کے ہوتے ہی اسے یہ سب کچھ مل جانا تھا۔اس لئے اب اٹھارا سال تک وہ اسے ساتھ رکھنے پر مجبور تھیں۔انہوں نےپری کو گھر لاتے ہی ایک کونے میں پھنک دیا تھا جیسے وہ بہت ہی ناکارا سی چیز ہو۔حمید صاحب کو اس بن ماں باپ کی بچی پر بڑا ترس آتا تھا مگر وہ خاموش تھے۔وہ چپکے چپکے اس دلاسا دیتے تھے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ امینہ نے برادری کے ڈر سے اسے سکول میں داخل کروادیا تھا۔وہ لوگوں کے سامنے اس سے جھوٹا پیار جتاتی تا کہ لوگوں کو اس پر شک نہ ہو۔ وہ اسے گھر سے باہر کہیں بھی آنے جانے نہ دیتی تھی۔پری صرف سکول اور سکول سے گھر آتی تھی حتی کہ اس دوست بنانے تک کی اجازت  تک نہیں تھی۔وہ اپنی پھوپھو سے اتنا ڈرتی تھی کی اس کے سامنے اس کی گھگی بندھ جاتی تھی۔وہ تنہائی میں بہت روتی تھی مگر شاید قسمت میں اس کے لئے صرف رونا ہی لکھا تھا۔امینہ بیگم نہ صرف اسے باتیں سناتی تھی بلکہ اس سے گھر کے کام بھی کرواتی تھی۔سکول سے آتے ہی وہ برتن دھوتی،جھاڑو پوچا لگاتی اور سارے کمروں کی صفائی کرتی۔کبھی کبھی تواتوار والے دن وہ سارے کپڑے ہاتھوں سے دھوتی۔ اس وجہ سے اس کے ننھے ننھے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے۔وہ پری جس کو اس کے ماں باپ نے بلکل پر ی کی طرح رکھا تھا کبھی کسی چیز کی تنگی نہ آنے دی تھی آج وہ زمانے کے رحم و کرم پر تھی۔اس کی بیماری میں بھی اس کا حال پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ان سب حالات نے اسے بہت زیادہ قابل رحم بنادیا تھا۔اس کے اندر خود اعتمادی بلکل ختم ہوگئی تھی۔اسے دنیا کی چلاکیوں کچھ علم نہ تھا۔اس کی زندگی میں صرف کام اور پھوپھو کے طنز کے تیر تھے۔اس کے علاوہ اسے دنیا کے بارے میں کچھ پتا نہ تھا۔اسی طرح ماہ وسال گزرتے رہے ۔اب وہ دسویں جماعت کی طالبعلم تھی مگر ان گزرتے سالوں میں اس کی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا وہ اب بھی اسی طرح نوکروں کی طرح کام کرتی تھی۔جب وہ ساتویں جماعت میں تھی تو امینہ بیگم نے نوکرانی کی چھٹی کرا دی تھی تب سے سارے گھر کی ذمہ داری اس کے سر تھی۔وہ صبح اٹھتے ہی جلدی جلدی سارے کام کر کے سکول جاتی تھی۔اور سکول سے واپس آتے ہی پھر لنچ وغیرہ بناتی  اور برتن دھوتی تھی۔جب باقی گھر والے سو جاتے تھے دن کے وقت تب وہ اپنی پڑھائی کرتی تھی ورنہ اس کے علاوہ اس کے پاس ٹائم نہیں تھا۔پھوپھو کو تو ویسے ہی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ مرے یا جئے،پاس ہو یا فیل ہو۔وہ تو بس اپنی برادری کا منہ بند کرنے کے  لئے اسے سکول بجھوا رہی تھیں۔اس طرح اس نے اپنی زندگی کے پندرہ سال گزارے تھے ان گزرے سالوں میں اس کی معصومیت میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔اس کی زندگی میں بس ایک ہی اچھی چیز ہوئی تھی کہ اس کی ایک دوست بن گئی تھی جو کہ بہت ہی بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی۔اس کو پری کی معصومیت نے بہت اٹریکٹ کیا تھا۔اس کے لئے یہ اچھنبے کی بات تھی کے کوئی اتنا معصوم اور پاکیزہ کیسے ہو سکتا ہے۔پہلے تو چاچی کے ڈر کی وجہ سے پری  اس کی باتوں کا جواب نہیں دیتی تھی مگر آہستہ آہستہ عینی کی باتونی نیچر کی وجہ سے وہ اس سے مانوس ہوتی گئی۔آخر کو وہ بھی تو بچپن سے اکیلی  تھی اسے بھی تو کوئی درد بانٹنے والا چاہیئے تھا۔ان دس سالوں میں اس نے سکول اور گھر کے علاوہ کوئی جگہ نہیں دیکھی تھی۔اس نے نویں کلاس میں بہت اچھے نمبر لئے تھے اور اب وہ میٹرک کی آخری کلاس میں تھی۔وہ سکول بھی چل کر جاتی تھی۔پھوپھو نے اسے گاڑی بھی نہیں لگوا کر دی تھی۔ کبھی کبھی حمید صاحب اسے چپکے سے سکول چھوڑ دیتے تھے جب وہ اپنے کام پر جاتے تھے۔مگر ایک دن امینہ نے دیکھ لیا تھا جس کی وجہ سےاب وہ اسے لے کر سکول نہیں جا سکتے تھے۔اس دن اسے پھوپھو نے بہت سنائی تھی جس کی وجہ سےوہ اب ڈر کے مارے حمید صاحب سے بات تک نہیں کرتی تھی۔کہ کہیں پھوپھو کو پھر اسے درد دینے کا موقع نہ مل جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال۔

  آج وہ سکول تھوڑا جلدی جانا چاہتی تھی کیوں کہ اس کے پیپر سر پر تھے مگر وہ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی کیوں پھر اسے اپنی بےعزتی کا شدید خوف تھا۔وہ آج صبح جلدی اٹھ گئی تھی تا کہ وہ اپنا کام جلدی سے نمٹا سکے۔مگر پھر بھی اسے دیر ہو گئی تھی کیوں کہ امینہ بیگم کے جوڑوں میں تکلیف تھی اور وہ بار بار اسے کسی نہ کسی بات کے لئے اسے اندر کمرے میں بلارہی تھیں۔وہ جیسے ہی اپنا کام کر کےگھر سے باہر نکلی گلی میں بھیڑ دیکھ کر گبھرا گئی۔لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے شاید کسی کا اکسیڈنٹ ہوا تھا۔وہ مزید ڈر گئی کہ اب وہ وہاں سے باہر  کیسے نکلے کیوں کہ گلی بہت تنگ تھی اور لوگوں سے کچھا کچھ بھری ہوئی تھی۔اس نے آہستہ آہستہ سے ہمت کر کے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی تقریبا بیس منٹ بعد وہ راستہ بنانےمیں کامیاب ہو گئی۔مگر جب تک وہ سکول پہنچی سکول کا گیٹ بند ہو چکا تھا ۔ اب اگر ایسے میں وہ سکول کے اندر جاتی تو اسے ٹیچر کی طرف سزا ملتی اسی ڈر کی وجہ سے وہ پیڑ کے نیچے کھڑی ہو گئی مگر آتے جاتے لوگوں کی نظروں سے گھبراتے ہوئے اس نے واپس گھر کی راہ لی ۔وہ پریشانی میں بے دھیانی سے سڑک کنارے چل رہی تھی کہ سامنے سے آتی گاڑی نہ دیکھ سکی اور گاڑی سے ٹکرا گئی۔گاڑی  چر کی آواز سے رک چکی تھی مگر دیر ہو چکی تھی۔پری کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔بلیک پراڈو میں  بیٹھےشخص نے ناگواری اور غصے سے ناک   بھوں چڑھائی تھی۔اس وقت جب اس نے گاؤں میں جلدی پہنچنا تھا تو گاڑی راستے میں بے وقت رکنے پر اسے بڑا غصہ آیا۔کیا مسئلہ ہے خیر دین۔ اس نے غصے بھری آواز سے کہا۔خیر دین جو پہلے ہی سے ایک چھوٹی لڑکی کو اپنی گاڑی سے ٹکراتے دیکھ چکا تھاا ور اپنے صاحب کے غصے سے خوف زدہ نظر آ رہا تھا۔ اس کے اس طرح پوچھنے پر بری طرح گڑ بڑا گیا۔شاہ سائیں وہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہماری گاڑی کے ساتھ۔وٹ کیا۔تو جا کر چک کروں۔خیر دین جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا تو دیکھا تو لڑکی بےہوش پڑی تھی۔اسے دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے وہ جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھا اورکھڑکی بجائی۔بازل کے کھڑکی نیچے کرنے پر اس نے ساری صورت حال سے بازل کو آگاہ کیا۔یہ سب سنتے ہی بازل جلدی سے اپنی گاڑی سے باہر نکلا اسے اب سچ میں فکر ستا رہی تھی کیوں کہ اسے اس کی اماں نے اسے گھر ایمرجنسی میں بلایا تھا اگر اسے یہاں دیر ہو جاتی تو گھر اماں پریشان ہوتی۔گاڑی سے نکلتے ہی اس نے دیکھا کہ ایک سترہ اٹھارا سال کی لڑکی سکول یونیفارم میں اوندھے منہ نیچے پڑی تھی۔ اس نے اسے ہلا جلا کر اس کی ناک کے نیچے ہاتھ رکھ کر دیکھا کہ آیا وہ زندہ ہے کہ نہیں۔اس کی سانس آہستہ آہستہ چل رہ تھی۔ اس نے اسے جلدی سے باہوں میں اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا اورخود اس کا سر گود میں رکھ دیا اور ڈرائیور کو گاڑی جلدی چلانے کا کہا تا کہ ہسپتال جلدی پہنچ سکے۔خیردین نے گاڑی نزدیکی ہسپتال کے گرد روکی ۔بازل جلدی سے گاڑی سے نیچے اترا اور پری کو باہوں میں اٹھا کر ایمرجنسی کی طرف بھاگا۔ڈاکٹر نے پہلے تو اسے پولیس کیس سمجھ کر اسے ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا مگر پھر بازل کے اثر روسوخ کو دیکھتے ہوئے انہوں نےہار مان لی اور فورا پری کا ٹریٹمنٹ شروع کر دیا۔بازل سخت اضطراب میں ہسپتال کے چکر کاٹ رہا تھا ،وہ بہت اکھڑ مزاج اور سخت گیر تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ کسی کو موت کے منہ میں اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا۔ابھی اسے ٹہلتے ہوئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اسے ایمرجنسی روم سے ڈاکٹر آتے ہوئے دیکھائی دیا۔وہ جلدی سے ڈاکٹر کی جانب بڑھااور بولا ڈاکٹر صاحب اندر جو مریض ہے اس کی کیا کنڈیشن ہے۔ڈاکٹر نے آگے سے جواب دیا کہ اس بچی کو ہم نے اب خطرے سے باہر نکال لیا ہے مگر آج کی رات انہیں انڈر آبزرویشن رکھنا پڑے گا۔آپ ویسے تو بہت پاورفل آدمی ہیں مگر یہ سراسر پولیس کیس ہے اس کے لئے ہمیں پولیس کو بلوانا پڑے گا۔آپ فکر نہ کریں ڈاکٹر صاحب میں نے پہلے ہی پولیس کو بلوالیا ہے  میں پاورفل ضرور ہوں مگر اپنی زمہ داریاں اچھے سے جانتا ہوں اس لئے آپ بلکل ٹینشن نہ لیں اور مریض کا علاج کریں ہسپتال کا جتنا خرچا ہو گا میں خود اٹھاو گا۔ اس نے رسان سے جواب دیا۔اچھا شاہ صاحب  آپ فکر نہ کریں  کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ہم مریض کا بھرپور خیال رکھیں گیں۔ یہ ہماری ڈیوٹی ہے بس ایک بات آپ سے کہنی تھی کیا آپ ان کی فیملی کو  جانتے ہیں اگر جانتے ہیں   تو انہیں انفارم کر دیتے ۔نہیں جانتا یہ ہمیں سکول کے ساتھ والی سڑک پر ملی اور سکول یونیفارم میں ہیں تو   اگر یہ اس سکول کی طالبہ ہیں تو پھر میں اپنے آدمیوں سے کہ کر  گھر کا اڈریس نکلواتا ہوں  اچھا  شاہ صاحب اپنا خیال رکھئے گا۔ڈاکٹر یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔تھوڑی دیر میں پولیس آ گئی تھی اور اس نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا اب بس پری کا جاگنے کا انتظار تھا تا کہ پولیس اس سے بھی پوچھ گاچھ کر سکے۔بازل نے اپنی ماں جان کو فون کر کے آگاہ کر دیا تھا کہ شہر میں اس کا دوست کسی مصیبت میں ہے اس لئے وہ نہیں آ سکتا۔ انہیں وہ سچ نہیں بتا سکتا تھا کیوں کہ اس طرح وہ پریشان ہو جاتی۔وہ ہسپتال میں اپنے کسی آدمی کو چھوڑ کر جا سکتا تھا مگر ابھی ابھی اس نے سیاست میں قدم رکھا تھا اس لئے اپنے لئے کوئی نئی مصیبت نہیں کھڑی کرنا چاہتا تھا اور میڈیا والوں کو تو ویسے بھی بات کا  موقع چاہے ہوتا ہے۔

.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لنچ کا ٹائم ہو چکا تھا۔مگر ابھی تک پری کو ہوش نہیں  آیا تھا۔ایڈریس کا پتہ لگوا کر پری کے گھر فون کروادیا گیا تھا مگر اس کے گھر سے کوئی نہیں آیا تھا۔بازل کے لئے یہ اچھنبے کی بات تھی۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے لڑکی کے گھر والے آئیں تا کہ وہ اپنی پوزیشن کلئیر کر سکیں مگر کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا اور ایک وہ لڑکی تھی جسے ابھی تک ہوش نہیں آرہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی فون کی بل بجی۔ امینہ بیگم جو سیڑھیاں اتر رہی تھی۔جلدی سے سیڑھیاں اتر کر فون اٹھایا انہیں لگا تھا کہ ان کی سہیلی کا فون ہو گا۔مگر کسی انجان آدمی کی آواز سن کر حیران ہوئی۔مقابل نے انہیں پری کے اکسیڈنٹ کے بارے میں بتایا اور ہسپتال کا ایڈریس بتا کر جلدی آنے کو کہا۔مگر امینہ بیگم سوچ میں پڑ گئی اور جلدی سے فوں بند کر دیا۔ان کے نزدیک وہ مرتی یہ جیتی انہیں کیا فرق پڑتا۔وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس ابھی ہسپتال میں تھی کیوں کہ پری ویش کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ اب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ڈاکٹر اسے کئی بار اسے پری کی حالت کے بارے میں بتا چکے تھے۔اس نے دوبارہ پری کے گھر خود کال کی تھی۔اسے لگا تھا کہ شاید اس کے بندوں سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔مگر آگے سے کسی نے فون اٹھا کر بند کر دیا تھا۔اب مجبورا اسے تب تک یہاں رکنا تھا جب تک کہ کوئی اس کے گھر سے آ کر اس زمہ داری نہ لیتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمید صاحب گھر پر نہیں تھے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے۔ اس لئے امینہ بیگم مطمئن تھی کہ اب کوئی اس بدزات کے پیچھے نہیں جائے گا۔وہ اس بات سےانجان تھی کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کی اذانیں شروع ہو چکی تھی تب جا کر اسے کہی ہوش آیا تھا۔اس کے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے ڈاکٹر نے اسے انفارم کیا تھا ۔اس نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔ڈاکٹر نے پری سے کچھ سوال پوچھے اور روٹین کا چیک اپ کیا   وہ بالکل ٹھیک تھی،بس بہت کمزور تھی اور بہت سہمی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کے اوکے کرنے کے بعدپولیس اس سے پاس آئی تھی اور اس سے حادثے کےمطلق کچھ سولات کئے تھے۔جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ غائب دماغ کے ساتھ چل رہی تھی اس وجہ سے حادثہ پیش آیا۔اس کے اس بیان کے بعد اب بازل کی جان خلاصی ہوئی تھی۔پولیس نے بازل کو آ کر سب کچھ بتا دیا تھا۔ویسے تو بازل اب جا سکتا تھا مگر ابھی تک اس کے گھر والے نہیں آئے تھے اس لئے وہ ازراہ ہمدردی   ہسپتال میں رک گیا تھا۔ابھی اس کی ایک ڈرپ باقی تھی اس لئے تھوڑی اور دیر رکنا تھا۔صبح کے چھ بجے اس کی ڈرپ ختم ہوئی تھی۔نرس نے آ کر اسےانفارم کیا تھا۔نرس بھی اس اندر لیٹی لڑکی کی قسمت پر رشک کر رہی تھی جس کے لئے اس مردانہ وجاہت کے حامل شخص نے رات آنکھوں میں کاٹ کر گزاری تھی۔ بازل نرس کے بتانے کے بعد اس کمرے کی جانب بڑھا جس میں پری کو ٹریٹمنٹ  کے بعد شفٹ کر دیا تھا۔دروازہ ہلکا سا ناک کر کے وہ اندر داخل ہوا۔ پری  بستر سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔وہ تھوڑا سہم کر پیچھے ہوئے ایک غیر آدمی کو دیکھ کر۔ایک تو وہ پہلے ہی سے نروس تھی کہ وہ اتنی دیر سے گھر سے باہر تھی نا جانے پھوپھو اس کا کیا حشر کرتی۔اسے نرس بتا چکی تھی کہ وہ کل صبح سے ہسپتال میں تھی اور یہ بھی کہ جس کی گاری سے اس کی ٹکر لگی تھی وہیں اسے ہسپتال لے کر آئے تھے۔اور اس کا علاج کرایا تھا۔بازل شاہ کے کھنکارنے پر وہ ہوش میں آئی۔میرا نام بازل شاہ ہے اور میری گاڑی سے آپ کی ٹکر ہوئی تھی۔آپ کے گھر رابطہ کیا تھا مگر آپ کی خبر لینے کوئی نہیں پہنچا۔اگر آپ مناسب سمجھتی ہیں تو میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ویسے تو وہ انکار کرنے والی تھی مگر پھر صورت حال سمجھتے ہوئے اس نے ہاں کردی۔نہ اس کے پاس پیسے تھے کہ وہ رکشے یاں ٹیکسی میں چلی جاتی۔اس لئے ہامی بھر لی۔وہ آرام سے ہاسپٹل بیڈ پکڑ کر اٹھی اور دوپٹہ سر پر لے کر بازل کے پیچھے پیچھے چل دی۔


Post a Comment

0 Comments