Hot Posts

header ads

Zeest Ka Hasil | Urdu Romantic Novel


زیست کا حاصل


Zeest- Ka- Hasil | Urdu- Romantic- Novel

 


وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ۔ جب اسے چییخنے کی آواز سنائی دی۔یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ اس کی جان سے پیاری بہن کی تھی۔وہ بہن جو اب اس ظالم دنیامیں اس اس کا واحد سہارا تھی۔اس کے ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اس کی جان سے پیاری لاڈلی بہن ہی اس کا واحد سہارا تھی۔اپنی جان سے پیاری بہن کی درد بھری آوازسنتے ہی اس کی آنکھیں غصے سے بھر گئی۔اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے۔کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ اس کی بہن کو تکلیف دینے والا کون تھا۔ وہ کمرے سے بھاگنے کے انداز سے باہر نکلی  اور سیڑھیاں اتر کے ایک ہی جست میں اپنی بہن کے پاس پہنچی۔ جو اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو تھامے سر جھکائے زاروقطار رورہی تھی۔ایشل کو دیکھتے ہی اس کے ساتھ لپٹ گئی جیسے کوئی چھوٹا بچہ ہو۔ایشل کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اپنی پیاری بہن کی اتنی ابتر حالت دیکھ کر۔وہ سامنے والی ہستی کو آنکھوں میں نفرت لیے دیکھنے لگی۔آپ کی ہمت کیسے ہوئی مشعل پر ہاتھ اٹھانے کی ایشل نے غصے سے بھرے انداز سے کہا۔او ہو ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ او مہا رانی ایک تو خود کوئی کام نہیں کرتی دوسرا اپنی بہن کو بھی نہیں کرنے دیتی۔ آخر کو تم دونوں مہارانیوں نے اس گھر کو سمجھ کے کیا رکھاہے۔تم دونوں کے مرحوم والدین آئے گے قبر سے اٹھ کر کام کرنے۔ سارا دن کھاتی رہتی ہو ایک جو کام کہ دیا تو میڈم پہنچ گئی پوچھ گاچھ کرنے۔چاچی اپنی زبان سنبھال کے بات کریں اور میرے مرحوم والدین کو برا بھلا نا کہیں ورنہ آپ کے لئے بلکل بھی اچھا نہیں ہو گا۔ او میڈم جی یہ اپنی قانون دانی کسی اور پر جھاڑنا اگر غلطی سے چار جماعتیں پڑھ گئی ہیں تو میرے سامنے زبان درازی نہ کر۔ہمارے ٹکروں پہ پل کر آج ہمیں سبق سکھا رہی ہے۔ ناسپٹی کہیں کی۔یہ جو آپ ہمیں اپنے ٹکروں پر پلنے کا طعنہ مار رہی ہیں۔ زرا دھیان رہے یہ گھر ہمارا ہے۔ میرے پاپا نے اپنی زندگی میں میرے نام کیا تھا۔اگر مجھے چاچو کا خیال نہ ہوتا تو ابھی تک آپ سڑک پر ہوتی اور رہی آپ کے ٹکروں پر  پلنے کی بات۔ میرے پاپا ہم دونوں کے لئے اتنی سیونگ چھوڑ کر گئے تھے کہ ہمیں پوری زندگی  بھی ہاتھ پیر مارنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ تو ہماری تربیت اور میرے بابا کے اصول مجھے روک لیتے ہیں ورنہ میں آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتی۔ اب تک میں نے اور میری معصوم بہن نے ہ آپ  کی ہر زیادتی برداشت کی صرف اور صرف اپنے باپ کی باتوں کا پاس رکھنے کے لئے اور اپنے چچا کا سر نیچا نہ دیکھنے کے لیے مگر اب بس بہت ہوا۔ کوئی بھی چیز میری بہن کے آنسویوں سے بڑ کر نہیں ہے۔مشعل بیٹا کیا ہوا بتاوں مجھے اپنی اپیا کو ۔وہ ابھی تک اس کے دوپٹے کا ایک کونا پکڑے سہمی رو رہی تھی۔ اس نے چچی پر سے اپنی  کینہ توزنظر ہٹا کر پوچھا۔مشعل اتنی ڈری ہوئی تھی اس کے حلق سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی۔چچی نے مجھے دودھ ابالنے کے لئے کہا ں تھا مگر غلطی سے مجھ سے گیس تیز ہو گئی جس کی وجہ سے دودھ گر گیا جس کی وجہ سے چچی کو غصہ آگیا۔میرا ہاتھ بھی جل گیا وہ روتے ہوئے بتانے لگی۔ایشل چچی پر غصے نکالنے کی وجہ سے اپنی بہن کے جلے ہاتھ کو تو تقریبا فراموش کر گئی تھی۔مشعل  نے درد بھری سسکاری لی تو مشعل کو ہوش آیا۔ آیندہ میں یا میری بہن آپ کا کوئی کام نہیں کریں گی۔اگر آپ کو کوئی مسلہ ہے تو آپ میڈ رکھ لیں تا کہ آپ کے کام وقت پر ہو جائیں ۔اس کی اس بات پر تو گویا چچی کو تو پتنگے ہی لگ گئے۔اے مہارانیوں تم دونوں کو اگر زرا سا کام پڑ جائے تو کیا موت پڑتی ہے جو میڈ رکھ لوں۔وہ اور کچھ کہتی مگر مشعل کے جلے ہاتھ کو دیکھ کر وہ خا موش ہو گئی اور مشعل کا ہاتھ پکڑ کر  باہر سڑھیوں کی طرف قدم بڑھا  دیئے۔ پیچھے سے چچی آوازیں دیتی رہ گئی۔مگر اس نے اپنے کان بند کر لئے تا کہ کوئی آواز سنائی نہ دے کیوں کی اس وقت اسے صرف اور صرف اپنی بہن کی فکر تھی جو کہ شدید درد میں تھی۔ اس نے کمرے میں جاتے ہی جلدی سے دراز سے کریم نکال کر مشعل کے ہاتھوں پر لگائی۔جلن پر ٹھنڈ کا احساس ہوتے ہی مشعل کے منہ سے سسکاری نکلی۔میری جان فکر نہ کروں اب درد میں آرام ملے گا۔ آج چاچو آئیں تو میں ان سے فائنل بات کرتی ہوں یہاں سے شفٹ ہونے کی.آپی کیا ہم سب کچھ چھوڑ کے چلے جائیں گے۔ اس کے معصومانہ سوال پر یشل نے آھ بھری۔ میری جان یہ گھر ہمارا ہے ہمارے والدین اسے ہمارے لئے چھوڑ کر گئے ہیں تا کہ ہم اس میں ہنسی خوشی رہیں مگر کیا کریں اس گھر سے ماما پاپا کے گزر جانے کے بعد صرف دکھ ہی ملے ہیں۔ حلانکہ چچا جان بہت خیال کرتے ہیں پاپا مما کے جانے  کے بعد وہی ایک واحد رشتہ ہیں جنہیں ہماری سب سے زیادہ فکر ہے مگر چچی  وہ تو انہوں  نےتو ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ابھی تک میں صرف چچا جان کی وجہ سے خاموش تھی مگر اب نہیں۔ اب پانی  سرسے اوپر گزر چکا ہے۔ حد ہوتی ہے ظلم کی تمھارا ہاتھ جل گیا۔تمھری اتنی تکلیف پر بھی ان کا دل نہین پگھلا۔الٹا اوپر سے تمھاری بے عزتی کرتی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ تو میرے سامنے ہوا اور میں نے دیکھ لیا۔ نا جانے میرے پیچھے کیا کرتی ہوں گی۔تم تو ڈرتی ہو کہ گھر میں لڑائی نہ ہو اور میں ٹینشن نہ لو۔ مگر میری معصوم بہن کچھ چیزیں چھپانی سے نہیں چھپتی۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ جب میں جاب سے واپس آتی ہو تو مجھے تمھاری روئی آنکھیں نظر نہیں آتی۔مگر میں چپ تھی تو اس وجہ سے کہ تم مجھے خود آ کر  بتاوں گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نہیں آپی ایسی کوئی بات نہیں مشعل نے ججھکتے ہوئے کہا۔ اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو مت بتاو مگر تمہیں پتہ ہے کہ تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا۔ اس بات پر مشعل نے کوئی جواب نہیں دیا کیوں کے اسے پتا تھا کہ آگے بھی اس کی ماں جائی ہے جو اس کے دل کی ہر بات جان لیتی ہے۔کہنے کو تو دونوں بہنیں تھی مگر دونوں میں زمیں آسمان کا فرق تھا۔ ایشل جتنی بہادر تھی مشعل اتنی ہی ڈرپوک اور دبو قسم کی لڑکی تھی۔ایشل نے اپنی مرضی سے وکالت کا شعبہ چنا اور   آئےروزنت نئے لوگوں سے پنگے لیتی۔ایک تو ویسے ہی نڈر تھی دوسرا اسے کسی غریب کا دکھ دیکھا نہیں جاتا تھا اس لئے ہمیشہ بے خوف خطر ہر کیس کے لئے تیار ہوتی تھی اور ہمیشہ  جیت  بھی جاتی تھی۔یہی وجہ تھی  ان گزرے سالوں میں اس کے دشمنوں میں خاطر خواہ ا ضافہ ہو تھا مگر پرواہ کسے تھی۔ چاچو کے  بے حد اصرار پر اس نے اپنے ساتھ گارڈز رکھ لئے تھے۔اب وہ گارڈز کے ساتھ ہر جگہ جاتی تھی مگر مشعل کو اپنے ساتھ کہیں  باہرلے کر نہیں جاتی تھی کہ کہیں کوئی اسے نقصان نہ پہنچا دے۔مشعل ویسے بھی لوگوں سے گھبر اتی تھی اس لئے ہمیشہ گھر پہ رہتی تھی۔اس نے پرائیوٹ ہی بی اے میں داخلہ لے رکھا تھا۔اس لئے اس کا زیادہ وقت گھر پر گزرتا تھا اور اس لئے چچی اس بیچاری معصوم پر اپنے سارے ظلم ڈھاتی۔ سارے کام وہ کرتی اور پھر بھی شمہ چچی اپنے طعنوں سے باز نہیں آتی اور ہمیشہ بے نقط سناتی۔آج بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ایشل کا خیال تھا کہ وہ اب چاچو سے بات کریں گی کہ وہ اپنی بہن کو لے کر کہیں شفٹ ہونا چاہتی ہے۔ اسے اس بات کا ااندازہ تھا کہ چاچو اس بات پر ایگری نہیں کرے گے پر اس بار اس کا ارادہ اٹل تھا۔اسے یقین تھا وہ چاچو کو راضی کر لے گی۔ اس کے چاچو پراپرٹی  کا کام کرتے تھے۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی ان کا سب کچھ یہ دونوں تھی مگر ان کی بیگم کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ان کے اندر اولاد کی کمی نے عجیب چڑچڑا پن پیدا کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ان دونوں پر اپنی بھڑاس نکالتی تھی۔

 

ناول چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔


ماضی:

احمد اور حماد دو بھائی تھے۔دونوں نے اپنی پسند کی شادی کی۔احمد اپنی بیوی سائشہ سے بہت پیا ر کرتےتھے۔وہ دونوں  کالج کے دوست تھے۔دوستی  رشتہ داری میں بدلی اور وہ دونوں میاں بیوی بن گئے جبکہ حماد نے کسی جاننے والے کے زریعے شادی کی تھی ان کی ارینج میرج تھی۔شمہ جب سے شادی کر کے آئی تھی وہ احمد اور سائشہ کے پیار سے جلتی تھی کیوں کہ اس کے ہزبینڈ حماد سادہ سی طبیعت  کے  رومینس سے کوسوں دور تھے ۔اسی جلن اور حسد نے احمد اور سائشہ کی جان لی تھی۔ احمد اور سائشہ کی شادی کو سال ہوا تھا جب ان کے گھر ایشل نے جنم لیا۔ وہ دونون بہت خوش تھے ۔ شادی کے دوسرے سال ان کے گھر ایک اور ننھی پری آئی جس کا نام مشعل رکھا۔ اسی طرح ان کے ہنسی خوشی مین دن گزر رہے تھے۔ وقت پر لگاکر اڑ رہا تھا۔ان کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے ایشل اور مشعل نے سکول جانا شروع  کر دیا تھا۔ اس دوران شمہ کی گود خالی تھی جس کی وجہ سے اسکی جلن میں  دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔  اس دن مشعل کے سکول میں تھیم پارٹی تھی۔ سب کا ارادہ شاپنگ کرنے کا تھا مگر شمہ ان دونوں پریگنٹ تھی جس کی وجہ سے اس کو ڈاکٹر نے  آرام کرنے کا کہا تھا اس لئے ایشل اور مشعل دونوں اس کے پاس رک گئی۔ حماد صاحب  بزی تھے کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ میں اس لئے گھر پر شمہ کے  ساتھ ایشل اور مشعل تھیں۔ بد قسمتی سے سڑک کا موڑ کاٹتے ہی احمد اور سائشہ کی گاڑی ٹرالر سے ٹکرا گئی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ شمہ اپنے  اوپر والے پورشن میں اپنے کمرے میں تھی  جب اسے نیچے سے ایشل کی آواز آئی کہ کوئی انکل ہے جو کسے بڑے سے بات کرنا چاہتا ہے۔وہ جلدی سے سیڑھیاں  نیچے اتنے لگی تو اس کے پاؤں پھسلا جس کی وجہ سے  وہ گر گئی۔ لاونج میں دردناک چیخ گونجی۔ حماد صاب بھی میٹنگ سے آگئے تھے کیون کہ انہیں بھی پتہ چل چکا تھا حاٖدثے کے بارے میں۔ گھر بمیں قدم رکھتے ہی ایک نئی مصیبت آن پڑی تھی۔اس  حادثے میں ان کا بچہ مر گیا اور  اس  حادثے کے بعدشمہ کبھی ماں نہیں بن سکی ۔اس کی ان بہنوں سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ  بھی یہی تھی۔اس حادثے کے بعد ان کی زندگی بہت مشکل سے ٹریک پر آئی تھی۔چچا جان نے ان دونوں کو بہت پیار اور توجہ دی تھی اس سارے عرصے میں۔ انہوں نے اپنا دکھ بھلا کر  ان دونوں کو سنبھا لا تھا۔ اس لئے یہ دونوں بہنیں بھی اپنا ہر دکھ بھلا کر  صرف چچا کے لئے سب کچھ برداشت کر رہی تھیں۔

 

ناول چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔


حال:

حماد صاب آج کسی وجہ سے لیٹ ہو گئے تھے اس لیے ایشل ان کا ویٹ کر رہی تھی۔ ٹہلتے ٹہلتے اسے بھوک لگی تو وہ کچن میں آ گئ اور بریانی پلیٹ میں نکال  کر کھانے لگی ۔اتنے میں اسے باہر سے  قدموں کی آواز سنائی دی اسے پتا تھا کہ چاچو ہی ہوں گے اس لئے پلیٹ شلیف پر چھوڑ کر  وہ باہر آئی۔ چاچوجان آپ آ گئے وہ ان کے گلے لگتے ہوئے بولی۔ جی میری جان آپ ابھی تک سوئی نہیں ۔ نہیں میں آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔ کیوں بیٹا کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ میں ہو نا میں اپنی بیٹی کی حفاظت کروں گا ۔نہیں چاچو ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے اس گھر میں آئے دن نیا تماشہ ہوتا ہے آپ کو تو پتا ہے چچی  کا۔ میں تو سارا دن با ہر کورٹ کچہری میں ہوتی ہوں پیچھے سے مشعل کی شامت آئی رہتی ہے۔چچی اس کی آئے دن بے عزتی کرتی ہیں۔ آج تو اس کا ہاتھ جل گیا مگر پھر بھی چچی اس کو کھڑا کر کے بے عزتی کرتی رہی اگر میں نہ ہوتی تو پتا نہیں کیا ہوتا۔کیا ہوا بیٹا مشعل ٹھیک تو ہے نا اسے کچھ ہوا تو نہیں۔ نہیں  چاچو وہ ٹھیک ہے آپ پریشان  نہ ہوں۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں مشعل کو لے کر یہاں سے کہیں شفٹ ہونا چاہتی ہونا ہوں گر آپ اجازت دیں    بیٹا میں بہت شرمندہ ہوں میں اپنے مرحوم بھائی بھابھی کو کیا منہ  دیکھاوں گا کہ میں ان کی اولاد کی حفاظت نہیں کر سکا۔ حماد چاچو کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ اس نے جلدی سے اپنے چاچو کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔ چاچو آپ سے جو ہو سکا آپ نے کیا ہے ہم کو آپ  سے کوئی گلہ نہی ہے۔ مجھے بس آپ کی اجازت چاہے اور دعائیں پلیز آپ انکار مت کیجیے گا۔ بیٹا میرے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے مگر اس گھر پر تم دونوں کا حق ہے۔ میں اور میری گناہگار بیوی کہیں چلے جاتے ہیں۔ نہیں چاچو ایشل فورا بولی۔یہ آپ کا بھی گھر ہے اور آپ ہمارے بڑے ہے تو آپ اس گھر میں رہے گے۔ ایسے بھی میری جاب یہاں سے بہت دور ہے میں روز تھک جاتی ہو سفر کر کے۔ ہم آفس کے نزدیک کوئی گھر رینٹ پر لیں گے میری لئے بھی آسانی ہو جائے گی۔پلیز پلیز چچا جان ۔ ٹھیک ہے مگر تم اپنے گھر میں سیکورٹی کا فل بندوبست کروں گی کیوں کہ مجھے تمھاری بہت فکر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے میں کل ہی رینٹ پر گھر دیکھوں گی۔ نہیں بیٹا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  میں سب سنبھال لوں گا۔ میں گھر ٖٖفائنل کر کے تمہیں بتا دوں گا تم جا کر دیکھ لینا۔اوکے جیسا آپ کہیں۔ ٹھیک ہے  چاچو آپ بھی آرام کریں کافی دیر ہو گئی ہے۔ ٹھیک ہے بیٹا تم بھی ریسٹ کروں صبح جلدی اٹھنا ہے تمہیں۔  اوکے چاچو وہ یہ کہہ کر چل دی  اپنے کمرے میں سونے کے لئے۔

 

احمد اٹھو بیٹا دیر ہو رہی ہے جلدی کروں ورنہ آفس کے لئے لیٹ ہو جاؤں گے۔ فائزہ  بیگم نیچےسے آوازیں لگا رہیں تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ نیند کا کچا ہے جلدی اٹھ جائے گا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ پندرہ منٹ بعد فریش ہو کر نیچے تھا۔ گڈ مارننگ بیٹا کیسے ہو ۔ عیسی خان نے کہا پاپا میں ٹھیک ہوں۔ برخوردار آج تو جلدی اٹھ جاتے روز روز لیٹ ہونے کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے انہؤں نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں تو کہتی ہوں  اس کی شادی کر دیں خود ہی سیدھا ہو جائے گا فائزہ نے  باپ بیٹے کی بات میں حصہ ڈالتےہوئے کہا۔ بھئی میں تو ریڈی ہوں اپنے پوتے پوتیوں کو کھلانے کے لیے آپ اپنے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے سے پوچھ لیں انہیں کوئی لڑکی پسند ہت تو بات آگے بڑھائیں۔ عیسی نے بات کا حظ اٹھاتے ہوئے کہا۔پاپا آپ بھی اوکے بھئی کچھ نہیں کہتا باقی اب تمھاری ماں پر ہے تمھاری دلہن دیکھنا۔ احمد نے آنکھیں گھمائی تو وہ ہنستے ہوئے آفس میں چل دیئے۔ احمد عیسی اور فائزہ کی اکلوتی اولاد تھا ۔اس لئے وہ اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ دوستوں کی  طرح بر  تاؤ کرتا تھا۔عیسی  کا اپنا بزنس تھا ان کی خواہش تھی کہ احمد بھی ان کی کمپنی کو جوائن کرے مگر احمد کو وکیل بننے کا شوق تھا انہوں نے اسے زیادہ فورس نہیں کیا اور اسے اپنی مرضی کرنے دی۔ اس لئے اب وہ شہر کے مشہور ترین وکیلوں میں سے ایک تھا۔ وہ کمپنی میں بھی ویک اینڈ پر چکر لگاتا تھا۔ کمپنی کے سارے معملات کی خبر  رکھتا تھا اس لئے عیسی صاحب بھی مطمئن تھے کہ ان کے بعد ان کا بیٹا ان کا بزنس ڈوبنے نہیں دے گا۔ اب اس کے ما ں باپ  کی یہ خواہش تھی کہ وہ جلد سے جلد شادی کر لے۔ مگر ابھی تک وہ ریڈی نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ جب اسے کوئی ایسی لڑکی ملے گی جسے اسے پہلی نظر میں پیار ہو جائے وہ اسے ہی اپنی لائف پارٹنر بنائے گا۔


ایشل اور مشعل دونوں اپنے  نئے گھر میں سیٹل ہو چکی تھی۔چاچو جان نے ان کے لئے شہر کے پوش ایریا اور قدرے سیف جگہ گھر لے کر دیا تھا۔ سکیورٹی کا فل بندوبست تھا۔حماد چاچو نے کہا تھا کہ وہ رات کو انکے پاس رہیں گے۔ اس بات پر شمہ نے  شور تو بہت مچایا مگر انہوں نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ وہ یتیم بچیاں صرف اور صرف تمھاری وجہ سے اس گھر سے گئی ہیں اگر تم نے مزید کوئی تماشہ کرنے کی کوشش کی تو ایک منٹ میں تمھاری بوڑھی عمر کا لحاظ کیے بغیر اس گھر سے چلتا کروں گا۔ تو وہ دھمکی سے ڈر کر خاموش ہو گئی۔ آ خر اس عمر میں کس کا دروازہ کھٹکھٹاتی   اس لئے چپ کا روزہ رکھ لیا۔ شمہ نے ایشل اور مشعل کے گھر سے جاتے ہی  میڈ رکھ لی تھی اس لئے وہ رات کو گھر میں اکیلی نہیں تھیں۔اب ایشل کو مشعل کی ٹینشن نہیں تھی اس نے بھی اپنے گھر کے لئے میڈ کا انتظام کیا تھا تا کہ مشعل کی مدد بھی ہو جائے اور وہ دن بھر اکیلی بور بھی نہ ہو۔ ان کی میڈ بھی نوجوان لڑکی تھی  جس کا نام مریم تھا۔ مشعل تو اس کے آتے ہی بہت خوش تھی۔ اب دونون سارا دن نت نئی ریسپیز ٹرائے کرتی اور گھر میں ادھم مچائے رکھتی۔ ایشل بہت خوش تھی اپنی بہن کی خوشیاں دیکھ  کر۔

احمد کی آج کوئی کورٹ  کی تاریخ نہیں تھی مگر کسی چھوٹے سے کام کے سلسلے میں  ادھر آیا تھا۔ وہ جلدی میں تھا اس لئے سامنے سے آتا وجود وہ دیکھ نہیں پایا اور دھڑام سے ٹکرا گیا۔ تھوڑی دیر لگی ہوش میں آنے میں۔ سوری کہتے ہی جیسے ہی اس نے نظر بھر کراوپر دیکھا اس کی دنیاہی   مانو رک گئی ہو۔ ایشل بھی آج جلدی میں تھی کیؤں کہ آج مشعل کی آج سالگرہ تھی اس لئے اسے اپنی بہن کے لئے گفٹ لینا تھا اس لئے اہ بھی سامنے سے آتے چھ فٹ کے آدمی کو دیکھ نہیں پائی۔ آئی ایم   سوری ٹو ایشل نے جلدی سے کہا۔ وہ احمد کوجانتی تھی آخر کو وہ  ایک مشہور وکیل تھا۔ ایشل کی ایک دوست اور ساتھی وکیل کو احمد پہ کرش تھا ۔ اس لئے وہ اس کی پوری رپوٹ رکھتی تھی کہ اور ایشل کو بھی بتاتی تھی۔ احمد کب سے کھڑا اسے مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ اسے کوفت ہونے لگی۔ سر اس نے اس کی آنکھوں کے گرد ہاتھ ہلایا مگر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں تھا۔

 

دل کا قرار تھی وہ لڑکی 

                                        نا جانے کیسا خمار تھی وہ لڑکی

 

ایشل نے گلا کھنکارا تو اسے ہوش آیا ۔ اسے اپنی اس حرکت پر بہت شرمندگی ہوئی ۔ وہ کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں تھا جو لڑکی کو دیکھ کر کنٹرول کھو دے مگر نا جانے کیوں اس لڑکی کو دیکھ کر اس کا دل بے قابو ہو گیا اور نظریں قابو میں نہیں رہی۔ سو سوری احمد نے جلدی سے کہا مبادہ وہ اسے غلط نہ سمجھ لے۔ اٹس اوکے۔ بائے دا وے میرا نام احمد ہے۔ ہائے  مائی نیم از ایشل۔ اوکے نائس نیم۔ اف یو ڈونٹ مائینڈ   میں جا سکتی ہوں اس نے جلدی سے کہا۔جی ہاں بلکل  ۔ وہ راستے سے ہٹا تو ایشل جلدی سے وہاں سے چلی گئی۔ احمد کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیاتھا۔

احمد کو صرف اس کا نام پتا تھا۔ اس نے اپنے ایک دوست کی مدد ایشل کا سارا بائیو دیٹا نکلوا لیا تھا۔ اب اسے اپنے مان باپ کو راضی کر کے ایشل کے گھر رشتہ بیھجنا تھا۔ اس نے جب اپنے گھر بتایا تو اس کے پیرنٹس بہت  خوش ہوئے ، آخر کا ان کی دلی مراد پوری ہو گئی تھی۔ انہوں نے جلدی سے ایشل کے گھر رشتہ لے جانے کا سوچا۔ دوسرے دن ہی وہ رشتہ لے کر ان کے گھر تھے ۔ گھر پر صرف مشعل اور مریم تھیں۔ فائزہ بیگم دونوں سے پیار سے ملی اور کسی بڑے کو بلانے کے لئے  کہا۔پہلے تو سیکورٹی نے انہیں اندر نہیں آنے دیا مگر جب انہوں نے وجہ بتائی اور کہا کہ ہم ایشل بیٹے کو جانتے ہیں تو تب انہیں اجازت ملی۔ مشعل کے فون کرتے ہی حماد صاحب پہنچ گئے۔ انہیں تھوڑی فکر ہو رہی تھی کہ پتا نہین کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ مگر جب ان سے تؑعارف ہوا تو مطمئن ہو گئے۔ ان کے آنے کی وجہ جان کر بھی سکون ہوا کیوں کہ رشتہ کافی اچھا تھا اور ین کی کب سے خواہش تھی کہ ان کی دونوں بیٹیا ں اپنے گھروں کی ہو جائیں۔ انہیں نے کہ انہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ احمد کی تصویر وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ انہیں اچھا لگا تھا لڑکا مگر ایشل کی راضامندی بھی ضروری تھی۔ اس لئے انہوں نے کہا وہ اپنی بیٹی سے بات کر کے جواب دیں گے۔ایشل گھر پر نہیں تھی تو مشعل نے ان کو موبائل پر تصویر دکھا دی تھی۔ انہیں بہت پسند آئی تھی، انہیں اپنے بیٹے کی پسند پر رشک آیا تھا۔ انہیں ان دونوں کے ماں باپ کی ڈیتھ کا پتا چلا تھا تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ انہوں نے واپس آ کر احمد کو ان کے چاچو کا جواب بتایا۔ اب احمد کو اس بات کی فکر تھی کہ ایشل انکار نہ کرے۔


ایشل کے واپس آتے ہی جیسے ہی چاچو  اس سے بات کی۔پہلے تو وہ حیران ہوئی اور انکار کرنا چاہا مگر پھر چاچو کے سمجھانے پر راضی ہو گئی۔ آخر ایک نہ ایک دن تو شادی کرنی ہی تھی ۔ حماد نے اپنی تسلی کر لینے کے بعد احمد کی فیملی کو  ہاں میں جواب دیا تھا۔ یہ سب سن کر وہ سب بہت خوش ہوئے ۔ احمد کی خواہش تھی کہ ایک دفعہ وہ خود آپس میں ملے تا کہ وہ ایشل کی مرضی جان سکے۔ وہ ڈنر پر ملے تو ایشل نے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کی رضا میں راضی ہے۔احمد کو یہ سن کر تسلی ہوئی۔ایک مہینے بعد ان کی شادی ہو گئی۔ شادی والی رات احمد نے ایشل کو بتایا کہ کیسے وہ اسے پہلی نظر میں پسند آ گئی تھی۔ایشل بھی خوش تھی کہ اسے اتنا اچھا جیون ساتھی ملا تھا۔ ان کی شادی کے ایک ہفتے بعد چچی کا مارکیٹ جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ معذور ہو گئی۔ اس عرصے میں  مشعل نے ان کا دھیان رکھ رہی تھی۔ ان بھی اپنی غلطی کا اھساس ہو گیا تھا انہوں نے معافی بھی مانگ لی تھی ان دونوں بہنوں سے۔مشعل کی بھی منگنی  ہو گئی تھی۔ایشل کی شادی پر لڑکے والوں نے اسے دیکھا اور پسند کر لیا۔ اس کی ساتھ ہی فورا منگنی ہو گئی۔ ایشل احمد جیسے ہزبینڈ کو پا کر بہت خوش تھی اسے لگتا تھا اسے اس کی زیست کا حاصل مل گیا تھا۔ اس پر وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی  کم تھا۔

                                                                  

Post a Comment

0 Comments